کلیاتِ جگر
جگر مراد آبادی
کلیاتِ جگر - لاہور مشتاق بُک کارنر 2012
:فہرست
۔ ابتدائیہ
دورِاول
۔ کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
۔ تم مجھ سے چھوٹ کر رہے سب کی نظر میں
۔ ستم کا وعدومستحق ہو گیا
۔ جان یے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا
۔ آج کیا حال ہے یا رب اسرِمحفل میرا
۔ کیا آگیا خیال دلِ بے قرار کا
۔ جواب ان کا کہاں سارے جہان میں
۔ دل کی تسکین کے لے دو پھول دامن میں نہیں
۔ اچھا ہے پاس کوئی غم خوار بھی نہیں
۔ صدموں کی جان، درد کا قالب دیا مجھے
۔ آہ! میری یہ فعاں، اب نہ سنی جاے گی
۔ شب وصل کیا مختصر ہو گئی
دورِ دوم(تخیلاتِ جگر)
۔ دل کیا ہے ، نقش حسنِ عقیدت طراز کا
۔ وہ ہجر کے پردے میں جس وقت کہ واصل تھا
۔ یہ مزا تھا خلد میں بھی، نہ مجھے قرار ہوتا
۔ عشق جب مصروفِ اصلاحاتِ روح وتن میں تھا
۔ بے خودی کا نہ ہو اشک کسی بیگانے کو
۔ سوز میں بھی وہی اک نغمہ ہے، جو ساش میں ہے
۔ تاثیر محبت کی اللہ رے مجبوری
۔ دلِ حزیں کی تمنا دلِ حزیں میں رہی
۔ کیا بلا عشقِ تماشا ساز ہے
۔ سنا ہے حشر میں اک حسن ِ عالمگیردیکیھں گے
۔ درِ فردوس نظر آنے لگا باز مجھے
۔ خاص اک شان ہے آپ کی چاہنے والوں کی
دورِ سوم (جزباتِ جگر)
۔ اس کی نگہِ ناز کے قابل نہ سمجھنا
۔ یادِ ایام کہ جلووں کو ترے ہوش نہ تھا
۔ رحمت نے مجھ مائلِ عصیاں بنا دیا
۔ نہ دیکھا، رخِ بے نقاب محبت
۔ بے نقاب آج تو یوں جلوہ جاناں ہو جاے
۔ اک حسن کا دریا ہے ، اک نور کا طوفاں ہے
۔ کوئی نہ گھر ہے اپنا ۔ کوئی آستاں ہے
دورِ چہارم(وارداتِ جگر)
۔ عشق کو بے نقاب ہونا تھا
۔ ایک رنگیں نقاب نے مارا
۔ ستمِ کامیاب نے مارا
۔ دل نے سینے میں تڈپ کرانہیں جب یاد کیا
۔ اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
۔ تم اس دلِ وحشی کی وفاوں پہ نہ جانا
۔ ہجوم تجلی سے معمور ہوکر
۔ اب ان کا کیا بھروسہ ۔ وہ آئیں با نہ آئیں
لمحاتِ طور (نظمیں)
۔ شکستِ
۔ غمِ انتظار
۔ تصویر و تصور
۔ نرگسِ مستنانہ
۔ یادِ ایام
۔ ہلال عید
۔ شعلہ طور کے بعد آتش گل سے پہلے
۔ آتشِ گل
۔ آدمی، آدمی سے ملتا ہے
ںظمیں
۔ تجدید
۔ یاد
۔ سراپا
۔ آوازیں
۔ نواے وقت
۔ دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
۔ اعلانِ جمہوریت
۔ ساقی سے خطاب
غیر مدوَن کلام
۔ داغِ جگر
۔ شعلہ
۔ لمعاتِ طور
۔ آتش گل کے بعد
:فہرست
۔ ابتدائیہ
دورِاول
۔ کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
۔ تم مجھ سے چھوٹ کر رہے سب کی نظر میں
۔ ستم کا وعدومستحق ہو گیا
۔ جان یے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا
۔ آج کیا حال ہے یا رب اسرِمحفل میرا
۔ کیا آگیا خیال دلِ بے قرار کا
۔ جواب ان کا کہاں سارے جہان میں
۔ دل کی تسکین کے لے دو پھول دامن میں نہیں
۔ اچھا ہے پاس کوئی غم خوار بھی نہیں
۔ صدموں کی جان، درد کا قالب دیا مجھے
۔ آہ! میری یہ فعاں، اب نہ سنی جاے گی
۔ شب وصل کیا مختصر ہو گئی
دورِ دوم(تخیلاتِ جگر)
۔ دل کیا ہے ، نقش حسنِ عقیدت طراز کا
۔ وہ ہجر کے پردے میں جس وقت کہ واصل تھا
۔ یہ مزا تھا خلد میں بھی، نہ مجھے قرار ہوتا
۔ عشق جب مصروفِ اصلاحاتِ روح وتن میں تھا
۔ بے خودی کا نہ ہو اشک کسی بیگانے کو
۔ سوز میں بھی وہی اک نغمہ ہے، جو ساش میں ہے
۔ تاثیر محبت کی اللہ رے مجبوری
۔ دلِ حزیں کی تمنا دلِ حزیں میں رہی
۔ کیا بلا عشقِ تماشا ساز ہے
۔ سنا ہے حشر میں اک حسن ِ عالمگیردیکیھں گے
۔ درِ فردوس نظر آنے لگا باز مجھے
۔ خاص اک شان ہے آپ کی چاہنے والوں کی
دورِ سوم (جزباتِ جگر)
۔ اس کی نگہِ ناز کے قابل نہ سمجھنا
۔ یادِ ایام کہ جلووں کو ترے ہوش نہ تھا
۔ رحمت نے مجھ مائلِ عصیاں بنا دیا
۔ نہ دیکھا، رخِ بے نقاب محبت
۔ بے نقاب آج تو یوں جلوہ جاناں ہو جاے
۔ اک حسن کا دریا ہے ، اک نور کا طوفاں ہے
۔ کوئی نہ گھر ہے اپنا ۔ کوئی آستاں ہے
دورِ چہارم(وارداتِ جگر)
۔ عشق کو بے نقاب ہونا تھا
۔ ایک رنگیں نقاب نے مارا
۔ ستمِ کامیاب نے مارا
۔ دل نے سینے میں تڈپ کرانہیں جب یاد کیا
۔ اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
۔ تم اس دلِ وحشی کی وفاوں پہ نہ جانا
۔ ہجوم تجلی سے معمور ہوکر
۔ اب ان کا کیا بھروسہ ۔ وہ آئیں با نہ آئیں
لمحاتِ طور (نظمیں)
۔ شکستِ
۔ غمِ انتظار
۔ تصویر و تصور
۔ نرگسِ مستنانہ
۔ یادِ ایام
۔ ہلال عید
۔ شعلہ طور کے بعد آتش گل سے پہلے
۔ آتشِ گل
۔ آدمی، آدمی سے ملتا ہے
ںظمیں
۔ تجدید
۔ یاد
۔ سراپا
۔ آوازیں
۔ نواے وقت
۔ دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
۔ اعلانِ جمہوریت
۔ ساقی سے خطاب
غیر مدوَن کلام
۔ داغِ جگر
۔ شعلہ
۔ لمعاتِ طور
۔ آتش گل کے بعد
978-969-599-014-8
891.4391 ج۔گ۔ر
کلیاتِ جگر - لاہور مشتاق بُک کارنر 2012
:فہرست
۔ ابتدائیہ
دورِاول
۔ کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
۔ تم مجھ سے چھوٹ کر رہے سب کی نظر میں
۔ ستم کا وعدومستحق ہو گیا
۔ جان یے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا
۔ آج کیا حال ہے یا رب اسرِمحفل میرا
۔ کیا آگیا خیال دلِ بے قرار کا
۔ جواب ان کا کہاں سارے جہان میں
۔ دل کی تسکین کے لے دو پھول دامن میں نہیں
۔ اچھا ہے پاس کوئی غم خوار بھی نہیں
۔ صدموں کی جان، درد کا قالب دیا مجھے
۔ آہ! میری یہ فعاں، اب نہ سنی جاے گی
۔ شب وصل کیا مختصر ہو گئی
دورِ دوم(تخیلاتِ جگر)
۔ دل کیا ہے ، نقش حسنِ عقیدت طراز کا
۔ وہ ہجر کے پردے میں جس وقت کہ واصل تھا
۔ یہ مزا تھا خلد میں بھی، نہ مجھے قرار ہوتا
۔ عشق جب مصروفِ اصلاحاتِ روح وتن میں تھا
۔ بے خودی کا نہ ہو اشک کسی بیگانے کو
۔ سوز میں بھی وہی اک نغمہ ہے، جو ساش میں ہے
۔ تاثیر محبت کی اللہ رے مجبوری
۔ دلِ حزیں کی تمنا دلِ حزیں میں رہی
۔ کیا بلا عشقِ تماشا ساز ہے
۔ سنا ہے حشر میں اک حسن ِ عالمگیردیکیھں گے
۔ درِ فردوس نظر آنے لگا باز مجھے
۔ خاص اک شان ہے آپ کی چاہنے والوں کی
دورِ سوم (جزباتِ جگر)
۔ اس کی نگہِ ناز کے قابل نہ سمجھنا
۔ یادِ ایام کہ جلووں کو ترے ہوش نہ تھا
۔ رحمت نے مجھ مائلِ عصیاں بنا دیا
۔ نہ دیکھا، رخِ بے نقاب محبت
۔ بے نقاب آج تو یوں جلوہ جاناں ہو جاے
۔ اک حسن کا دریا ہے ، اک نور کا طوفاں ہے
۔ کوئی نہ گھر ہے اپنا ۔ کوئی آستاں ہے
دورِ چہارم(وارداتِ جگر)
۔ عشق کو بے نقاب ہونا تھا
۔ ایک رنگیں نقاب نے مارا
۔ ستمِ کامیاب نے مارا
۔ دل نے سینے میں تڈپ کرانہیں جب یاد کیا
۔ اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
۔ تم اس دلِ وحشی کی وفاوں پہ نہ جانا
۔ ہجوم تجلی سے معمور ہوکر
۔ اب ان کا کیا بھروسہ ۔ وہ آئیں با نہ آئیں
لمحاتِ طور (نظمیں)
۔ شکستِ
۔ غمِ انتظار
۔ تصویر و تصور
۔ نرگسِ مستنانہ
۔ یادِ ایام
۔ ہلال عید
۔ شعلہ طور کے بعد آتش گل سے پہلے
۔ آتشِ گل
۔ آدمی، آدمی سے ملتا ہے
ںظمیں
۔ تجدید
۔ یاد
۔ سراپا
۔ آوازیں
۔ نواے وقت
۔ دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
۔ اعلانِ جمہوریت
۔ ساقی سے خطاب
غیر مدوَن کلام
۔ داغِ جگر
۔ شعلہ
۔ لمعاتِ طور
۔ آتش گل کے بعد
:فہرست
۔ ابتدائیہ
دورِاول
۔ کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
۔ تم مجھ سے چھوٹ کر رہے سب کی نظر میں
۔ ستم کا وعدومستحق ہو گیا
۔ جان یے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا
۔ آج کیا حال ہے یا رب اسرِمحفل میرا
۔ کیا آگیا خیال دلِ بے قرار کا
۔ جواب ان کا کہاں سارے جہان میں
۔ دل کی تسکین کے لے دو پھول دامن میں نہیں
۔ اچھا ہے پاس کوئی غم خوار بھی نہیں
۔ صدموں کی جان، درد کا قالب دیا مجھے
۔ آہ! میری یہ فعاں، اب نہ سنی جاے گی
۔ شب وصل کیا مختصر ہو گئی
دورِ دوم(تخیلاتِ جگر)
۔ دل کیا ہے ، نقش حسنِ عقیدت طراز کا
۔ وہ ہجر کے پردے میں جس وقت کہ واصل تھا
۔ یہ مزا تھا خلد میں بھی، نہ مجھے قرار ہوتا
۔ عشق جب مصروفِ اصلاحاتِ روح وتن میں تھا
۔ بے خودی کا نہ ہو اشک کسی بیگانے کو
۔ سوز میں بھی وہی اک نغمہ ہے، جو ساش میں ہے
۔ تاثیر محبت کی اللہ رے مجبوری
۔ دلِ حزیں کی تمنا دلِ حزیں میں رہی
۔ کیا بلا عشقِ تماشا ساز ہے
۔ سنا ہے حشر میں اک حسن ِ عالمگیردیکیھں گے
۔ درِ فردوس نظر آنے لگا باز مجھے
۔ خاص اک شان ہے آپ کی چاہنے والوں کی
دورِ سوم (جزباتِ جگر)
۔ اس کی نگہِ ناز کے قابل نہ سمجھنا
۔ یادِ ایام کہ جلووں کو ترے ہوش نہ تھا
۔ رحمت نے مجھ مائلِ عصیاں بنا دیا
۔ نہ دیکھا، رخِ بے نقاب محبت
۔ بے نقاب آج تو یوں جلوہ جاناں ہو جاے
۔ اک حسن کا دریا ہے ، اک نور کا طوفاں ہے
۔ کوئی نہ گھر ہے اپنا ۔ کوئی آستاں ہے
دورِ چہارم(وارداتِ جگر)
۔ عشق کو بے نقاب ہونا تھا
۔ ایک رنگیں نقاب نے مارا
۔ ستمِ کامیاب نے مارا
۔ دل نے سینے میں تڈپ کرانہیں جب یاد کیا
۔ اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
۔ تم اس دلِ وحشی کی وفاوں پہ نہ جانا
۔ ہجوم تجلی سے معمور ہوکر
۔ اب ان کا کیا بھروسہ ۔ وہ آئیں با نہ آئیں
لمحاتِ طور (نظمیں)
۔ شکستِ
۔ غمِ انتظار
۔ تصویر و تصور
۔ نرگسِ مستنانہ
۔ یادِ ایام
۔ ہلال عید
۔ شعلہ طور کے بعد آتش گل سے پہلے
۔ آتشِ گل
۔ آدمی، آدمی سے ملتا ہے
ںظمیں
۔ تجدید
۔ یاد
۔ سراپا
۔ آوازیں
۔ نواے وقت
۔ دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
۔ اعلانِ جمہوریت
۔ ساقی سے خطاب
غیر مدوَن کلام
۔ داغِ جگر
۔ شعلہ
۔ لمعاتِ طور
۔ آتش گل کے بعد
978-969-599-014-8
891.4391 ج۔گ۔ر