مہرِ دونیم

By: افتخارعارفMaterial type: TextTextPublication details: اسلام آباد پورب اکادمی 2013DDC classification: 891.4393 IFT Summary: فہرست ۔ پیش مامہ ۔ نئی تنہائیوں کا دردمند شاعر ۔ مکالمہ مرا شرف کہ تو مجھے جایز ۔ کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے ۔ وہی پیاس ہے دہی دشت ہے وہی گھرانا ہے ۔ کہاں کے نام و نسب علم کیا فضلیت کیا ۔ اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے ۔ آخری آدمی کارجز ۔ قصہ ایک بسنت کا ۔ ایک رُخ ۔ خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم ۔ مرے خُدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے ۔ خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں ۔ بارہواں کھلاڈی ۔ انتباہ ۔ چک پھیری ۔ ایک تھا راجہ چھوٹا سا ۔ سمندر اس قدر شوریدہ کیوں ہے ۔ ہجر کی دھوپ میں چھاوں جیسی باتیں کرتے ہیں ۔ عذاب وحشتِ جاں کا صلیہ نہ مانگے کوئی ۔ پتہ نہیں کیوں ۔ احتجاج ۔ ایک سوال ایک اُداس شام کے نام ۔ دنِ گزرآشفتہ سر خوموش ہوئے ۔ عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا ۔ ایک اور تازیانہ منظر لگا ہیمں ۔ پُرانے دشمن ۔ ٹیمز کے ساحل پر ۔ سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا ایارا نہیں ۔ رنگ تھا روشنہ تھا قامت تھا ۔ دُعا ۔ ایک کہانی بڑی پُرانی ۔ مثل موجِ رواں گزر گئی شب ۔ پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے ۔ اپنے ایک دوست کے نام ۔ کوئی تو پھول کھلائے دُعا کے لہجے ۔ ایک پل کا فاصلہ ہے ۔ ایک نا بینا بستی کے نام ۔ بیلنس شیٹ ۔ دُکھ اور طرح کے ہیں دعُا اور طرح کی ۔ غم جہاں کو شرمسار کرنے والے کیا ہوئے ۔ ذعم حشمِ صف بہ صف چاہتے ہیں ۔ نئے موسم کی خوشبو آزمانا چاہتی ہیں ۔ راتیں شور مچاتی ہیں ۔ کُچھ دل سے کسی نے کہیہ دیا پھر ۔ سجل کہ شورزمینوں میں آشیانہ کرے ۔ یہ اب کُھلا کہ کوئی بھی منظر مرانہ تھا ۔ زمیں پیروں میں سر پرسماں نیئں ۔ یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے ۔ کسی اہل ہجر کی بد دعا ہے کی خود سری کا قصورہے ۔ کسِ قیامت خیز چُب کا زہرسناٹے میں ہے ۔ اعلان نامہ ۔ اور ہوا چُپ رہی ۔ ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا ۔ منظرے ہیں نہ دیدہ بیناکے دم سے ہیں ۔ پش نوشت
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
    Average rating: 0.0 (0 votes)
Item type Current library Call number Status Date due Barcode
Books Books Senate of Pakistan Library
891.4393 IFT (Browse shelf (Opens below)) Available 15165

فہرست
۔ پیش مامہ
۔ نئی تنہائیوں کا دردمند شاعر
۔ مکالمہ
مرا شرف کہ تو مجھے جایز
۔ کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
۔ وہی پیاس ہے دہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
۔ کہاں کے نام و نسب علم کیا فضلیت کیا
۔ اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
۔ آخری آدمی کارجز
۔ قصہ ایک بسنت کا
۔ ایک رُخ
۔ خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم
۔ مرے خُدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
۔ خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں
۔ بارہواں کھلاڈی
۔ انتباہ
۔ چک پھیری
۔ ایک تھا راجہ چھوٹا سا
۔ سمندر اس قدر شوریدہ کیوں ہے
۔ ہجر کی دھوپ میں چھاوں جیسی باتیں کرتے ہیں
۔ عذاب وحشتِ جاں کا صلیہ نہ مانگے کوئی
۔ پتہ نہیں کیوں
۔ احتجاج
۔ ایک سوال
ایک اُداس شام کے نام
۔ دنِ گزرآشفتہ سر خوموش ہوئے
۔ عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
۔ ایک اور تازیانہ منظر لگا ہیمں
۔ پُرانے دشمن
۔ ٹیمز کے ساحل پر
۔ سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا ایارا نہیں
۔ رنگ تھا روشنہ تھا قامت تھا
۔ دُعا
۔ ایک کہانی بڑی پُرانی
۔ مثل موجِ رواں گزر گئی شب
۔ پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے
۔ اپنے ایک دوست کے نام
۔ کوئی تو پھول کھلائے دُعا کے لہجے
۔ ایک پل کا فاصلہ ہے
۔ ایک نا بینا بستی کے نام
۔ بیلنس شیٹ
۔ دُکھ اور طرح کے ہیں دعُا اور طرح کی
۔ غم جہاں کو شرمسار کرنے والے کیا ہوئے
۔ ذعم حشمِ صف بہ صف چاہتے ہیں
۔ نئے موسم کی خوشبو آزمانا چاہتی ہیں
۔ راتیں شور مچاتی ہیں
۔ کُچھ دل سے کسی نے کہیہ دیا پھر
۔ سجل کہ شورزمینوں میں آشیانہ کرے
۔ یہ اب کُھلا کہ کوئی بھی منظر مرانہ تھا
۔ زمیں پیروں میں سر پرسماں نیئں
۔ یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے
۔ کسی اہل ہجر کی بد دعا ہے کی خود سری کا قصورہے
۔ کسِ قیامت خیز چُب کا زہرسناٹے میں ہے
۔ اعلان نامہ
۔ اور ہوا چُپ رہی
۔ ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا
۔ منظرے ہیں نہ دیدہ بیناکے دم سے ہیں
۔ پش نوشت

فہرست
۔ پیش مامہ
۔ نئی تنہائیوں کا دردمند شاعر
۔ مکالمہ
مرا شرف کہ تو مجھے جایز
۔ کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
۔ وہی پیاس ہے دہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
۔ کہاں کے نام و نسب علم کیا فضلیت کیا
۔ اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
۔ آخری آدمی کارجز
۔ قصہ ایک بسنت کا
۔ ایک رُخ
۔ خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم
۔ مرے خُدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
۔ خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں
۔ بارہواں کھلاڈی
۔ انتباہ
۔ چک پھیری
۔ ایک تھا راجہ چھوٹا سا
۔ سمندر اس قدر شوریدہ کیوں ہے
۔ ہجر کی دھوپ میں چھاوں جیسی باتیں کرتے ہیں
۔ عذاب وحشتِ جاں کا صلیہ نہ مانگے کوئی
۔ پتہ نہیں کیوں
۔ احتجاج
۔ ایک سوال
ایک اُداس شام کے نام
۔ دنِ گزرآشفتہ سر خوموش ہوئے
۔ عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
۔ ایک اور تازیانہ منظر لگا ہیمں
۔ پُرانے دشمن
۔ ٹیمز کے ساحل پر
۔ سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا ایارا نہیں
۔ رنگ تھا روشنہ تھا قامت تھا
۔ دُعا
۔ ایک کہانی بڑی پُرانی
۔ مثل موجِ رواں گزر گئی شب
۔ پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے
۔ اپنے ایک دوست کے نام
۔ کوئی تو پھول کھلائے دُعا کے لہجے
۔ ایک پل کا فاصلہ ہے
۔ ایک نا بینا بستی کے نام
۔ بیلنس شیٹ
۔ دُکھ اور طرح کے ہیں دعُا اور طرح کی
۔ غم جہاں کو شرمسار کرنے والے کیا ہوئے
۔ ذعم حشمِ صف بہ صف چاہتے ہیں
۔ نئے موسم کی خوشبو آزمانا چاہتی ہیں
۔ راتیں شور مچاتی ہیں
۔ کُچھ دل سے کسی نے کہیہ دیا پھر
۔ سجل کہ شورزمینوں میں آشیانہ کرے
۔ یہ اب کُھلا کہ کوئی بھی منظر مرانہ تھا
۔ زمیں پیروں میں سر پرسماں نیئں
۔ یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے
۔ کسی اہل ہجر کی بد دعا ہے کی خود سری کا قصورہے
۔ کسِ قیامت خیز چُب کا زہرسناٹے میں ہے
۔ اعلان نامہ
۔ اور ہوا چُپ رہی
۔ ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا
۔ منظرے ہیں نہ دیدہ بیناکے دم سے ہیں
۔ پش نوشت

There are no comments on this title.

to post a comment.

TLS v. 3.0.1 by LISolutions
Koha 18.0504 (Oct. 2018)

Powered by Koha