کُلیاتِ عدم
Material type: TextPublication details: لاہور الحمد پبلی کیشنز 2009DDC classification: 891.4391 ع۔د۔م Summary: :فہرست ۔ مقدمہ ۔ ہو پیش کی کم، ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا ۔ نقاب رخ سے کبھی یوں اٹھادیا ہوتا ۔ تری نگاہ نے اتنا تو کر دیا ہوتا ۔ اگر چہ روزِازل بھی یہی اندھیرا تھا ۔ کوئی یوں بد دعا فرما گیا تھا ۔ اُس مہ جبیں پہ آیا ہوا جب شاب تھا ۔ ہستی کے آگے آئنے میں گماں کا وجود تھا ۔ سب جھوٹ تھا جو چشمہ حیواں کے پاس تھا ۔ دنیا اعتبار نہ کرتے تو ظلم تھا ۔ کوئی کسی مظلوم کا غمخوار نہیں تھا ۔ ایسے امید کا بھرم ٹوٹا ۔ وصل کا نام انتظار نہ تھا ۔ تیرا ملنا تو کچھ محال نہ تھا ۔ مے کدہ تھا، چاندنی تھی ، میں نہ تھا ۔ خوبصورت فریب کھاتا جا ۔ دل میں جو آبلہ تھا ترے انتظار کا ۔ اے عقل گلا گھونٹ نہ آزادی دلِ کا ۔ سفینہ اپنے دک کا، آپ ہی اب میں چلاؤں گا ۔ تسلی سے سمجھ اور سوچ کر، پہچان لیجے گا ۔ خبر کوئی میری اگر پائے گا ۔ جنوں بہار سے سرشارہو چکا ہو گا ۔ آپ کی آنکھ کی عزت کو بچانا ہو گا ۔ جو دیوانہ ہے وہ مشہور ہو گا ۔ آج ہو گا نہیں تو کل ہو گا ۔ کہیں مشکل کہیں آسان ہو گا ۔ خودبخود دو دو جام ہو جانا ۔ مے کدے میں قیام تھا اپنا ۔ عزیزو ! بس یہی اک کار کرنا ۔ بے دھڈک آن بان سے چلنا ۔ دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے ۔ ہجوم ہوش ہے اک جام دینا ۔ ہمارے قلب میں تخلیق جو بھی داغ ہوا ۔ خدا کے نام سے پہلے، زبان پر جس کا نام آیا ۔ دہائی ہے اس بے بسی کی خدایا ۔ زندگی میں وہ حسیں اس سادگی سے آگیا ۔ ناؤ سے طوفان جب ٹکرا گیا ۔ یوں ایک جستجو میں۔ میں دیوانہ بن گیا ۔ میں یوں نظام دھرپہ مامور ہوگیا ۔ رابط حسن و عشق جب ربط فراواں ہو گیا ۔ کیا ہے اس رعئے مرمریں کا جواب ۔ خواب تھا اس کے عدل کا اسلوب ۔ سنگدل ہو کر ہھی عزیز ہیں آپ ۔ کتنا روشن ہے فرِق موت و حیات ۔ کشتی چلا رہا ہے، مگر کس ادا کے ساتھ ۔ اہر سے کرتا ہے ، الفت کا علاج ۔ وہ سبک گام ہے صبا کی طرح ۔ ملی ہے تیری نظر تیرکِ اعتبار کے بعد ۔ زندگی نا تمام ہے شاید ۔ کرنے نکلے تھے، کاروبار پسند ۔ بحر خاموش ، قطرہ نوحہ کناں ۔ جارہا ہوں انھیں پتا دے دوں ۔ کوئی جام پی لوں، کوئی کام کر لوں ۔ مارکر، دادخواہ ہے دنیا ۔ متفرق اشعار ۔ قطرے نے کوئے بحرمیں آسن جمالی ۔ اتنی ہستی کہاں کہ پیارکریں ۔ جانِ من آپ ایک کام کریں ۔ بسریوں جوانی کی راتیں کریں ۔ کسی کی زلف مسلسل سے رسم و راہ کریں ۔ کررہے ہیں جونادان آنکھیں ۔ طلب ہے جاننے کی، کچھ تو گم ہوجا مانی میں ۔ اس کا نقشہ ہے یہ جوانی میں ۔ غیر رستے میں یاررستے میں ۔ ہوں تراہی، جوہرکا فور میں ۔ غم محبت غم قصے تمام سناؤن گا تجھے ۔ دل کی بھرپور پیاس یے آنکھیں ۔ دھرتی پہ بدحواسی انساں ہے رقص میں ۔ بڑی خیروبرکت ہے اس کام میں ۔ غیر رستے میں یار رستے میں ۔ ہے دیر اُدھر ہی کرم کی نگاہ ہونے میں ۔ موج ہوں، رنگ ہوں، خوشبو ہوں کہ آواز میں ۔ دن گزر جائیں گے سرکار، کوئی بات نہیں ۔ اس چشم کیف بار کا احساں بہت نہیں ۔ داورِ دلچسپی ایام مجھے یاد نہیں ۔ رنرہوں محض دیندار نہیں ۔ ساز میں جو کچھ بھی ہے نغمات سے باہر نہیں ۔ یہ الگ بات ہے ساقی کہ مجھے ہوش نہیں ۔ اعتقادات کاسم چارہ آلام نہیں ۔ گھر کے اندر صاحبِ خانہ نہیں ۔ میرے خلوص تیری رضا کے قریب ہیں ۔ کاغذ کے پھول پر بھی ہے قربان عندلیب ۔ چشمے میں شاعری کی کتابیں ہیں پھول ہیں ۔ دلوں میں جو شاداب و یرانیاں ہیں ۔ سردیوں کی طویل راتیں ہیں ۔ حسیں صورتیں فیض کیا کر گئی ہیں ۔ دل سے آتی ہے یار کی خوشبو ۔ کچھ غرض پیدا کرو کوئی طلب پیدا کرو ۔ ہنس کے بولا کرو بلایا کرو ۔ غلط قدم نہ اٹھانے کی کوئی بات کرو ۔ رُخ سے گیسو ہٹا کے بات کرو ۔ چشمِ ساقی کے اشارات کی باتیں چھیڑو ۔ صبح کاشی کی بہاروں سے پکارو مجھ کو ۔ اپنی زمہ داریوں پر دھیان دیتے جائیے ۔ لطف خدا نہیں ہے تو جوربتاں رہے ۔ بات کی ڈوری نہ ٹوٹے داستاں چلتی رہے ۔ جمال صبح میں گاہے سواد شام میں گاہے ۔ دل دیا تھا انیھں کہ شاد رہے ۔ مختلف مجموعوں کے سرِ ورق پر درج اشعارItem type | Current library | Call number | Status | Date due | Barcode |
---|---|---|---|---|---|
Books | Senate of Pakistan Library | 891.4391 ع۔د۔م (Browse shelf (Opens below)) | Available | 15431 |
Browsing Senate of Pakistan Library shelves Close shelf browser (Hides shelf browser)
No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | No cover image available | |||
891.4391 ط ۔ ا ۔ ہ کُلیات خلیل جبران | 891.4391 ط ا ہ یرغمالِ خاک | 891.4391 ع ل ا بانگِ درا | 891.4391 ع۔د۔م کُلیاتِ عدم | 891.4391 غ۔ا۔ل دیوانِ غالب اورانتخاب | 891.4391 غ۔ل۔ا شرح کلام حضرت بابا بلھے شاہ | 891.4391 غ۔ل۔ا شرح کلام میاں محمد بخش |
:فہرست
۔ مقدمہ
۔ ہو پیش کی کم، ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا
۔ نقاب رخ سے کبھی یوں اٹھادیا ہوتا
۔ تری نگاہ نے اتنا تو کر دیا ہوتا
۔ اگر چہ روزِازل بھی یہی اندھیرا تھا
۔ کوئی یوں بد دعا فرما گیا تھا
۔ اُس مہ جبیں پہ آیا ہوا جب شاب تھا
۔ ہستی کے آگے آئنے میں گماں کا وجود تھا
۔ سب جھوٹ تھا جو چشمہ حیواں کے پاس تھا
۔ دنیا اعتبار نہ کرتے تو ظلم تھا
۔ کوئی کسی مظلوم کا غمخوار نہیں تھا
۔ ایسے امید کا بھرم ٹوٹا
۔ وصل کا نام انتظار نہ تھا
۔ تیرا ملنا تو کچھ محال نہ تھا
۔ مے کدہ تھا، چاندنی تھی ، میں نہ تھا
۔ خوبصورت فریب کھاتا جا
۔ دل میں جو آبلہ تھا ترے انتظار کا
۔ اے عقل گلا گھونٹ نہ آزادی دلِ کا
۔ سفینہ اپنے دک کا، آپ ہی اب میں چلاؤں گا
۔ تسلی سے سمجھ اور سوچ کر، پہچان لیجے گا
۔ خبر کوئی میری اگر پائے گا
۔ جنوں بہار سے سرشارہو چکا ہو گا
۔ آپ کی آنکھ کی عزت کو بچانا ہو گا
۔ جو دیوانہ ہے وہ مشہور ہو گا
۔ آج ہو گا نہیں تو کل ہو گا
۔ کہیں مشکل کہیں آسان ہو گا
۔ خودبخود دو دو جام ہو جانا
۔ مے کدے میں قیام تھا اپنا
۔ عزیزو ! بس یہی اک کار کرنا
۔ بے دھڈک آن بان سے چلنا
۔ دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے
۔ ہجوم ہوش ہے اک جام دینا
۔ ہمارے قلب میں تخلیق جو بھی داغ ہوا
۔ خدا کے نام سے پہلے، زبان پر جس کا نام آیا
۔ دہائی ہے اس بے بسی کی خدایا
۔ زندگی میں وہ حسیں اس سادگی سے آگیا
۔ ناؤ سے طوفان جب ٹکرا گیا
۔ یوں ایک جستجو میں۔ میں دیوانہ بن گیا
۔ میں یوں نظام دھرپہ مامور ہوگیا
۔ رابط حسن و عشق جب ربط فراواں ہو گیا
۔ کیا ہے اس رعئے مرمریں کا جواب
۔ خواب تھا اس کے عدل کا اسلوب
۔ سنگدل ہو کر ہھی عزیز ہیں آپ
۔ کتنا روشن ہے فرِق موت و حیات
۔ کشتی چلا رہا ہے، مگر کس ادا کے ساتھ
۔ اہر سے کرتا ہے ، الفت کا علاج
۔ وہ سبک گام ہے صبا کی طرح
۔ ملی ہے تیری نظر تیرکِ اعتبار کے بعد
۔ زندگی نا تمام ہے شاید
۔ کرنے نکلے تھے، کاروبار پسند
۔ بحر خاموش ، قطرہ نوحہ کناں
۔ جارہا ہوں انھیں پتا دے دوں
۔ کوئی جام پی لوں، کوئی کام کر لوں
۔ مارکر، دادخواہ ہے دنیا
۔ متفرق اشعار
۔ قطرے نے کوئے بحرمیں آسن جمالی
۔ اتنی ہستی کہاں کہ پیارکریں
۔ جانِ من آپ ایک کام کریں
۔ بسریوں جوانی کی راتیں کریں
۔ کسی کی زلف مسلسل سے رسم و راہ کریں
۔ کررہے ہیں جونادان آنکھیں
۔ طلب ہے جاننے کی، کچھ تو گم ہوجا مانی میں
۔ اس کا نقشہ ہے یہ جوانی میں
۔ غیر رستے میں یاررستے میں
۔ ہوں تراہی، جوہرکا فور میں
۔ غم محبت غم قصے تمام سناؤن گا تجھے
۔ دل کی بھرپور پیاس یے آنکھیں
۔ دھرتی پہ بدحواسی انساں ہے رقص میں
۔ بڑی خیروبرکت ہے اس کام میں
۔ غیر رستے میں یار رستے میں
۔ ہے دیر اُدھر ہی کرم کی نگاہ ہونے میں
۔ موج ہوں، رنگ ہوں، خوشبو ہوں کہ آواز میں
۔ دن گزر جائیں گے سرکار، کوئی بات نہیں
۔ اس چشم کیف بار کا احساں بہت نہیں
۔ داورِ دلچسپی ایام مجھے یاد نہیں
۔ رنرہوں محض دیندار نہیں
۔ ساز میں جو کچھ بھی ہے نغمات سے باہر نہیں
۔ یہ الگ بات ہے ساقی کہ مجھے ہوش نہیں
۔ اعتقادات کاسم چارہ آلام نہیں
۔ گھر کے اندر صاحبِ خانہ نہیں
۔ میرے خلوص تیری رضا کے قریب ہیں
۔ کاغذ کے پھول پر بھی ہے قربان عندلیب
۔ چشمے میں شاعری کی کتابیں ہیں پھول ہیں
۔ دلوں میں جو شاداب و یرانیاں ہیں
۔ سردیوں کی طویل راتیں ہیں
۔ حسیں صورتیں فیض کیا کر گئی ہیں
۔ دل سے آتی ہے یار کی خوشبو
۔ کچھ غرض پیدا کرو کوئی طلب پیدا کرو
۔ ہنس کے بولا کرو بلایا کرو
۔ غلط قدم نہ اٹھانے کی کوئی بات کرو
۔ رُخ سے گیسو ہٹا کے بات کرو
۔ چشمِ ساقی کے اشارات کی باتیں چھیڑو
۔ صبح کاشی کی بہاروں سے پکارو مجھ کو
۔ اپنی زمہ داریوں پر دھیان دیتے جائیے
۔ لطف خدا نہیں ہے تو جوربتاں رہے
۔ بات کی ڈوری نہ ٹوٹے داستاں چلتی رہے
۔ جمال صبح میں گاہے سواد شام میں گاہے
۔ دل دیا تھا انیھں کہ شاد رہے
۔ مختلف مجموعوں کے سرِ ورق پر درج اشعار
:فہرست
۔ مقدمہ
۔ ہو پیش کی کم، ہم سے تو دیکھا نہیں جاتا
۔ نقاب رخ سے کبھی یوں اٹھادیا ہوتا
۔ تری نگاہ نے اتنا تو کر دیا ہوتا
۔ اگر چہ روزِازل بھی یہی اندھیرا تھا
۔ کوئی یوں بد دعا فرما گیا تھا
۔ اُس مہ جبیں پہ آیا ہوا جب شاب تھا
۔ ہستی کے آگے آئنے میں گماں کا وجود تھا
۔ سب جھوٹ تھا جو چشمہ حیواں کے پاس تھا
۔ دنیا اعتبار نہ کرتے تو ظلم تھا
۔ کوئی کسی مظلوم کا غمخوار نہیں تھا
۔ ایسے امید کا بھرم ٹوٹا
۔ وصل کا نام انتظار نہ تھا
۔ تیرا ملنا تو کچھ محال نہ تھا
۔ مے کدہ تھا، چاندنی تھی ، میں نہ تھا
۔ خوبصورت فریب کھاتا جا
۔ دل میں جو آبلہ تھا ترے انتظار کا
۔ اے عقل گلا گھونٹ نہ آزادی دلِ کا
۔ سفینہ اپنے دک کا، آپ ہی اب میں چلاؤں گا
۔ تسلی سے سمجھ اور سوچ کر، پہچان لیجے گا
۔ خبر کوئی میری اگر پائے گا
۔ جنوں بہار سے سرشارہو چکا ہو گا
۔ آپ کی آنکھ کی عزت کو بچانا ہو گا
۔ جو دیوانہ ہے وہ مشہور ہو گا
۔ آج ہو گا نہیں تو کل ہو گا
۔ کہیں مشکل کہیں آسان ہو گا
۔ خودبخود دو دو جام ہو جانا
۔ مے کدے میں قیام تھا اپنا
۔ عزیزو ! بس یہی اک کار کرنا
۔ بے دھڈک آن بان سے چلنا
۔ دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے
۔ ہجوم ہوش ہے اک جام دینا
۔ ہمارے قلب میں تخلیق جو بھی داغ ہوا
۔ خدا کے نام سے پہلے، زبان پر جس کا نام آیا
۔ دہائی ہے اس بے بسی کی خدایا
۔ زندگی میں وہ حسیں اس سادگی سے آگیا
۔ ناؤ سے طوفان جب ٹکرا گیا
۔ یوں ایک جستجو میں۔ میں دیوانہ بن گیا
۔ میں یوں نظام دھرپہ مامور ہوگیا
۔ رابط حسن و عشق جب ربط فراواں ہو گیا
۔ کیا ہے اس رعئے مرمریں کا جواب
۔ خواب تھا اس کے عدل کا اسلوب
۔ سنگدل ہو کر ہھی عزیز ہیں آپ
۔ کتنا روشن ہے فرِق موت و حیات
۔ کشتی چلا رہا ہے، مگر کس ادا کے ساتھ
۔ اہر سے کرتا ہے ، الفت کا علاج
۔ وہ سبک گام ہے صبا کی طرح
۔ ملی ہے تیری نظر تیرکِ اعتبار کے بعد
۔ زندگی نا تمام ہے شاید
۔ کرنے نکلے تھے، کاروبار پسند
۔ بحر خاموش ، قطرہ نوحہ کناں
۔ جارہا ہوں انھیں پتا دے دوں
۔ کوئی جام پی لوں، کوئی کام کر لوں
۔ مارکر، دادخواہ ہے دنیا
۔ متفرق اشعار
۔ قطرے نے کوئے بحرمیں آسن جمالی
۔ اتنی ہستی کہاں کہ پیارکریں
۔ جانِ من آپ ایک کام کریں
۔ بسریوں جوانی کی راتیں کریں
۔ کسی کی زلف مسلسل سے رسم و راہ کریں
۔ کررہے ہیں جونادان آنکھیں
۔ طلب ہے جاننے کی، کچھ تو گم ہوجا مانی میں
۔ اس کا نقشہ ہے یہ جوانی میں
۔ غیر رستے میں یاررستے میں
۔ ہوں تراہی، جوہرکا فور میں
۔ غم محبت غم قصے تمام سناؤن گا تجھے
۔ دل کی بھرپور پیاس یے آنکھیں
۔ دھرتی پہ بدحواسی انساں ہے رقص میں
۔ بڑی خیروبرکت ہے اس کام میں
۔ غیر رستے میں یار رستے میں
۔ ہے دیر اُدھر ہی کرم کی نگاہ ہونے میں
۔ موج ہوں، رنگ ہوں، خوشبو ہوں کہ آواز میں
۔ دن گزر جائیں گے سرکار، کوئی بات نہیں
۔ اس چشم کیف بار کا احساں بہت نہیں
۔ داورِ دلچسپی ایام مجھے یاد نہیں
۔ رنرہوں محض دیندار نہیں
۔ ساز میں جو کچھ بھی ہے نغمات سے باہر نہیں
۔ یہ الگ بات ہے ساقی کہ مجھے ہوش نہیں
۔ اعتقادات کاسم چارہ آلام نہیں
۔ گھر کے اندر صاحبِ خانہ نہیں
۔ میرے خلوص تیری رضا کے قریب ہیں
۔ کاغذ کے پھول پر بھی ہے قربان عندلیب
۔ چشمے میں شاعری کی کتابیں ہیں پھول ہیں
۔ دلوں میں جو شاداب و یرانیاں ہیں
۔ سردیوں کی طویل راتیں ہیں
۔ حسیں صورتیں فیض کیا کر گئی ہیں
۔ دل سے آتی ہے یار کی خوشبو
۔ کچھ غرض پیدا کرو کوئی طلب پیدا کرو
۔ ہنس کے بولا کرو بلایا کرو
۔ غلط قدم نہ اٹھانے کی کوئی بات کرو
۔ رُخ سے گیسو ہٹا کے بات کرو
۔ چشمِ ساقی کے اشارات کی باتیں چھیڑو
۔ صبح کاشی کی بہاروں سے پکارو مجھ کو
۔ اپنی زمہ داریوں پر دھیان دیتے جائیے
۔ لطف خدا نہیں ہے تو جوربتاں رہے
۔ بات کی ڈوری نہ ٹوٹے داستاں چلتی رہے
۔ جمال صبح میں گاہے سواد شام میں گاہے
۔ دل دیا تھا انیھں کہ شاد رہے
۔ مختلف مجموعوں کے سرِ ورق پر درج اشعار
There are no comments on this title.