یرغمالِ خاک

By: طاہر حنفیMaterial type: TextTextPublication details: فیصل آباد مثال پبلشرز 2021DDC classification: 891.4391 ط ا ہ Summary: خاک کی دست درازی کا گواہ: طاہر حنفی غزلیں توڈے تھے ہم نے جو اسی جنگل میں رہ گےَ اب ہیں دریا کی روانی دور تک خون سے انکھیں بھر جائیں تو اچھا ہے ریشمی دیوار پر، سات رنگی تتلیاں حوصیلہ خود کو میں اب اور کیا دیتا ہوں پڑا ہے کام پھر سے ، میری چشمِ نم کو لے آو تھا تو ماحول ، پر تو نے پی تو نہیں وفا کا نام لیتے ہیں ، وفاداری نہیں کرتے اپنی اوقات میں رہنے کا ہنر اتا ہے یوں دل سے دل کے چاہت ہو ، مہبت راس آجاے ضرب اخری جو مثل قیامت ہے ابھی تک ایسے مجھے بنایا گیا یرغمال خاک بات سن کر جو ہوے جاتے ہو اتنا حیران موتیے کے ہار میں چوڑیاں کھنکتی ہیں کیجیے ، اعتبار وفا کیجیے میں خاص خاص رہوں یا عام ہو جاؤں نہ مر سکے گا یہ اس بار بھی سکون کے ساتھ زندگی میں جنھیں ٹوٹ کے چاہا جائے ایسے مجھے بنایا گیا یرغمالِ خاک سنگ کدوں میں عمرِ بتائے نیلی شام کا پانی سبز بات سن کر جو ہوئے جاتے ہو اتنا حیران باعثِ امکان ہیں اپنی جگہ نہ دعا کا ہوں، نہ سلام کا، مجھے بھول جا جتنے بھی مخالف ہیں، خداؤں سے لڈوں گا اب نیند نہیں آنکھ میں، خوابوں سے برے ہیں کچھ لوگ محّبت کی اداؤں سے الگ ہیں دیوار سائے کو، نہ کوئی سر پہ چھت رہے پانی بھرا ہے جسم میں اس کو نکال دے وہی سنتا ہے دُعا، سارا جہاں کہتا ہے اب جو اترے تو دعا بس یہی لب پر اترے میں خاص خاص رہوں یا کی عام ہو جاؤں جو رنجش کی باتیں ہیں ساری بھلا دوں ان کی جانب دیکھ لوں توآنکھیں ہو جاتی ہیں نم بدل گیا ہے زمانے کے ساتھ اب تو بھی نظمیں ازادی قلعی خسارے میں نوید ڈر چوک آخری گمشدہ یاد خود پسند دستار بندی ملکیت آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہی ایک لمہ ون وے ٹکٹ سنگِ خاموش آبِ حیات تہم داماں لچرپن جسدِ خاکی موت کا منظر آدرِش آؤ سچ بولیں چوتھی دنیا کے ایک امیر ملک سے سونامی دستار بندی وہی ہمارا ایک لمحہ موت کا منظر مقام شُکر
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
    Average rating: 0.0 (0 votes)
Item type Current library Call number Status Date due Barcode
Books Books Senate of Pakistan Library
891.4391 ط ا ہ (Browse shelf (Opens below)) Available D-1262

خاک کی دست درازی کا گواہ: طاہر حنفی
غزلیں
توڈے تھے ہم نے جو اسی جنگل میں رہ گےَ
اب ہیں دریا کی روانی دور تک
خون سے انکھیں بھر جائیں تو اچھا ہے
ریشمی دیوار پر، سات رنگی تتلیاں
حوصیلہ خود کو میں اب اور کیا دیتا ہوں
پڑا ہے کام پھر سے ، میری چشمِ نم کو لے آو
تھا تو ماحول ، پر تو نے پی تو نہیں
وفا کا نام لیتے ہیں ، وفاداری نہیں کرتے
اپنی اوقات میں رہنے کا ہنر اتا ہے
یوں دل سے دل کے چاہت ہو ، مہبت راس آجاے
ضرب اخری جو مثل قیامت ہے ابھی تک
ایسے مجھے بنایا گیا یرغمال خاک
بات سن کر جو ہوے جاتے ہو اتنا حیران
موتیے کے ہار میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
کیجیے ، اعتبار وفا کیجیے
میں خاص خاص رہوں یا عام ہو جاؤں
نہ مر سکے گا یہ اس بار بھی سکون کے ساتھ
زندگی میں جنھیں ٹوٹ کے چاہا جائے
ایسے مجھے بنایا گیا یرغمالِ خاک
سنگ کدوں میں عمرِ بتائے نیلی شام کا پانی سبز
بات سن کر جو ہوئے جاتے ہو اتنا حیران
باعثِ امکان ہیں اپنی جگہ
نہ دعا کا ہوں، نہ سلام کا، مجھے بھول جا
جتنے بھی مخالف ہیں، خداؤں سے لڈوں گا
اب نیند نہیں آنکھ میں، خوابوں سے برے ہیں
کچھ لوگ محّبت کی اداؤں سے الگ ہیں
دیوار سائے کو، نہ کوئی سر پہ چھت رہے پانی بھرا ہے جسم میں اس کو نکال دے
وہی سنتا ہے دُعا، سارا جہاں کہتا ہے
اب جو اترے تو دعا بس یہی لب پر اترے
میں خاص خاص رہوں یا کی عام ہو جاؤں
جو رنجش کی باتیں ہیں ساری بھلا دوں
ان کی جانب دیکھ لوں توآنکھیں ہو جاتی ہیں نم
بدل گیا ہے زمانے کے ساتھ اب تو بھی
نظمیں
ازادی
قلعی
خسارے میں نوید
ڈر چوک
آخری گمشدہ یاد
خود پسند
دستار بندی
ملکیت
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے
وہی ایک لمہ
ون وے ٹکٹ
سنگِ خاموش
آبِ حیات
تہم داماں
لچرپن
جسدِ خاکی
موت کا منظر
آدرِش
آؤ سچ بولیں
چوتھی دنیا کے ایک امیر ملک سے
سونامی
دستار بندی
وہی ہمارا ایک لمحہ
موت کا منظر
مقام شُکر

خاک کی دست درازی کا گواہ: طاہر حنفی
غزلیں
توڈے تھے ہم نے جو اسی جنگل میں رہ گےَ
اب ہیں دریا کی روانی دور تک
خون سے انکھیں بھر جائیں تو اچھا ہے
ریشمی دیوار پر، سات رنگی تتلیاں
حوصیلہ خود کو میں اب اور کیا دیتا ہوں
پڑا ہے کام پھر سے ، میری چشمِ نم کو لے آو
تھا تو ماحول ، پر تو نے پی تو نہیں
وفا کا نام لیتے ہیں ، وفاداری نہیں کرتے
اپنی اوقات میں رہنے کا ہنر اتا ہے
یوں دل سے دل کے چاہت ہو ، مہبت راس آجاے
ضرب اخری جو مثل قیامت ہے ابھی تک
ایسے مجھے بنایا گیا یرغمال خاک
بات سن کر جو ہوے جاتے ہو اتنا حیران
موتیے کے ہار میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
کیجیے ، اعتبار وفا کیجیے
میں خاص خاص رہوں یا عام ہو جاؤں
نہ مر سکے گا یہ اس بار بھی سکون کے ساتھ
زندگی میں جنھیں ٹوٹ کے چاہا جائے
ایسے مجھے بنایا گیا یرغمالِ خاک
سنگ کدوں میں عمرِ بتائے نیلی شام کا پانی سبز
بات سن کر جو ہوئے جاتے ہو اتنا حیران
باعثِ امکان ہیں اپنی جگہ
نہ دعا کا ہوں، نہ سلام کا، مجھے بھول جا
جتنے بھی مخالف ہیں، خداؤں سے لڈوں گا
اب نیند نہیں آنکھ میں، خوابوں سے برے ہیں
کچھ لوگ محّبت کی اداؤں سے الگ ہیں
دیوار سائے کو، نہ کوئی سر پہ چھت رہے پانی بھرا ہے جسم میں اس کو نکال دے
وہی سنتا ہے دُعا، سارا جہاں کہتا ہے
اب جو اترے تو دعا بس یہی لب پر اترے
میں خاص خاص رہوں یا کی عام ہو جاؤں
جو رنجش کی باتیں ہیں ساری بھلا دوں
ان کی جانب دیکھ لوں توآنکھیں ہو جاتی ہیں نم
بدل گیا ہے زمانے کے ساتھ اب تو بھی
نظمیں
ازادی
قلعی
خسارے میں نوید
ڈر چوک
آخری گمشدہ یاد
خود پسند
دستار بندی
ملکیت
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے
وہی ایک لمہ
ون وے ٹکٹ
سنگِ خاموش
آبِ حیات
تہم داماں
لچرپن
جسدِ خاکی
موت کا منظر
آدرِش
آؤ سچ بولیں
چوتھی دنیا کے ایک امیر ملک سے
سونامی
دستار بندی
وہی ہمارا ایک لمحہ
موت کا منظر
مقام شُکر

There are no comments on this title.

to post a comment.

TLS v. 3.0.1 by LISolutions
Koha 18.0504 (Oct. 2018)

Powered by Koha