زیست

By: ندیم احمد کنورMaterial type: TextTextPublication details: لاہور احسن حسنین پبلشرز 2012DDC classification: 891.4391, ن۔د۔ی Summary: فہرست ۔ ندیم احمد کنور کی شاعری ۔ زیست ۔ اللہ و باقی من کل فانی (حمد) ۔ کیا شان ہے آپ کی سرداری کی (نعت) ۔ آج بھی ہر دم یاد آتی ہے(لارنس) ۔ ٹوٹ کر چاہا ہے تجھ کو اس کا ہی احساس کر ۔ مجھ سے نہ کر وفا کی وفا مرگَ عشق ہے ۔ ہوتا یقیں تو صرف نظر کر کے دیکھتے ۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ کوئی دیکھ نہ سکے ۔ بھول کے ساتھ گرکا کانٹا نہ ہوتا ۔ ایک نظر دو نظر تین کہ چار نظر ۔ خالص تو اب ہوا بھی میسر نہیں یہاں ۔ مجھے نیند آرہی ہے ۔ یہ لشمکش حیات کی مجھ کو ستا رہی ہے ۔ دکھ کسی کو مت سنانا بھول کر اپنے کنور ۔ ٹوٹ کر جو ٹہینوں سے گرتے ہیں ۔ مستنصر حسین تارڑ کی نذر ۔ بکھرا ہوں کچھ اس ادا سے ۔ کچھ تو رشتہ ہے تیرا میرے اعصابوں کے ساتھ ۔ اکثر شب کی تنہائی میں ۔ اک روز اک گلی میں مجھے زندگی ملی ۔ حالات کی سولی تھی میں مجبور ہو گیا ۔ روح عظیم مجھ کو جلا راکھ بنا دے ۔ اپنا یہ جہاح دیکھ کے یزداں سے تو ۔ اشرف المخلوقات کا اعزاز بھی حاصل اسے ۔ خود احتسابی کے عمل سے جو گزر سکتا نہیں ۔ امجد صابری صاحب کے نام ۔ کاش یہ میرے بس میں ہوتا ۔ جناب عمران خان کے نام ۔ سیاست دان کے نام ۔ پاکستان کے گولڈن جوبلی کے موقع پر ۱۴ اگست کے نام ۔ اے وطن ہم تییرے لے وہ کام کریں گے ۔ اے میرے کشمیر ۔ کوئی تصور نہیں خیال نہیں ۔ لوگ پیتے ہیں کنور مدہوش ہونے کے لے ۔ تیرا کوئی ہمدرد یا غم خوار نہیں ہے ۔ دوستی دوستوں کی نظر ۔ وہی رت ہے وہی موسم سہانے ہم کہاں جائیں ۔ نہیں کوئی مدد ہماری مدد اللہ کی ہر ساری ۔ نہ جنت کی لالچ سے نہ دوذخ کے خوف سے ۔ یوں تو ہر اک شہر میں آج بھی برپا ہے کربلا ۔ مسجد یہ نبوی ہے ۔ کتاب منور سے ہے روشن سینہ تیرا ۔ بات اتنی سی ہے کہ کوئی بات نہیں ۔ آخرت پر کر لے یقین گرہےکامل ایمان تیرا ۔ میرا کہنا سنا کوئی ہے تو معاف کردیں ۔ قرار کی بات کرتے ہوبے قراری کا عالم ہے ۔ گزری تھی ایک شب جو کسی ماہ جبیں کے ساتگ ۔ لکھ دیا ہے اس طرح تیری جبیں پہ اپنا نام ۔ ہر لحظ ہم کو وہ یاد آئے تو کیا کرے ۔ کچھ ایسے لوگ بھی مجھ کو ملے ہیں ۔ بات ہے دل کی مان جانے کی ۔ دل میں ہو اندھرا تو چراغ کیا کریں گے ۔ میرے محبوب تو کیا جانے پیار کی کہانی ۔ اس طرح مجھ کو سہارا دے کہ پھر نہ گرسکوں ۔ کیا بات کہی سب سے بھلی بات یہی ہے ۔ خوابوں کی بات کرتے ہو کھبی عیاں ہو جائیں گے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے نام ۔ انسان مہت ظالم انسان درندہ ۔ قتل انانہ کر سکے وہ ہو گے شہید ۔ تقدیر کو بدل بھی دیا کرتی ہے دعا ۔ اقوال زریں
Tags from this library: No tags from this library for this title. Log in to add tags.
    Average rating: 0.0 (0 votes)
Item type Current library Call number Status Date due Barcode
Books Books Senate of Pakistan Library
891.4391, ن۔د۔ی (Browse shelf (Opens below)) Available D-1074

فہرست
۔ ندیم احمد کنور کی شاعری
۔ زیست
۔ اللہ و باقی من کل فانی (حمد)
۔ کیا شان ہے آپ کی سرداری کی (نعت)
۔ آج بھی ہر دم یاد آتی ہے(لارنس)
۔ ٹوٹ کر چاہا ہے تجھ کو اس کا ہی احساس کر
۔ مجھ سے نہ کر وفا کی وفا مرگَ عشق ہے
۔ ہوتا یقیں تو صرف نظر کر کے دیکھتے
۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ کوئی دیکھ نہ سکے
۔ بھول کے ساتھ گرکا کانٹا نہ ہوتا
۔ ایک نظر دو نظر تین کہ چار نظر
۔ خالص تو اب ہوا بھی میسر نہیں یہاں
۔ مجھے نیند آرہی ہے
۔ یہ لشمکش حیات کی مجھ کو ستا رہی ہے
۔ دکھ کسی کو مت سنانا بھول کر اپنے کنور
۔ ٹوٹ کر جو ٹہینوں سے گرتے ہیں
۔ مستنصر حسین تارڑ کی نذر
۔ بکھرا ہوں کچھ اس ادا سے
۔ کچھ تو رشتہ ہے تیرا میرے اعصابوں کے ساتھ
۔ اکثر شب کی تنہائی میں
۔ اک روز اک گلی میں مجھے زندگی ملی
۔ حالات کی سولی تھی میں مجبور ہو گیا
۔ روح عظیم مجھ کو جلا راکھ بنا دے
۔ اپنا یہ جہاح دیکھ کے یزداں سے تو
۔ اشرف المخلوقات کا اعزاز بھی حاصل اسے
۔ خود احتسابی کے عمل سے جو گزر سکتا نہیں
۔ امجد صابری صاحب کے نام
۔ کاش یہ میرے بس میں ہوتا
۔ جناب عمران خان کے نام
۔ سیاست دان کے نام
۔ پاکستان کے گولڈن جوبلی کے موقع پر ۱۴ اگست کے نام
۔ اے وطن ہم تییرے لے وہ کام کریں گے
۔ اے میرے کشمیر
۔ کوئی تصور نہیں خیال نہیں
۔ لوگ پیتے ہیں کنور مدہوش ہونے کے لے
۔ تیرا کوئی ہمدرد یا غم خوار نہیں ہے
۔ دوستی دوستوں کی نظر
۔ وہی رت ہے وہی موسم سہانے ہم کہاں جائیں
۔ نہیں کوئی مدد ہماری مدد اللہ کی ہر ساری
۔ نہ جنت کی لالچ سے نہ دوذخ کے خوف سے
۔ یوں تو ہر اک شہر میں آج بھی برپا ہے کربلا
۔ مسجد یہ نبوی ہے
۔ کتاب منور سے ہے روشن سینہ تیرا
۔ بات اتنی سی ہے کہ کوئی بات نہیں
۔ آخرت پر کر لے یقین گرہےکامل ایمان تیرا
۔ میرا کہنا سنا کوئی ہے تو معاف کردیں
۔ قرار کی بات کرتے ہوبے قراری کا عالم ہے
۔ گزری تھی ایک شب جو کسی ماہ جبیں کے ساتگ
۔ لکھ دیا ہے اس طرح تیری جبیں پہ اپنا نام
۔ ہر لحظ ہم کو وہ یاد آئے تو کیا کرے
۔ کچھ ایسے لوگ بھی مجھ کو ملے ہیں
۔ بات ہے دل کی مان جانے کی
۔ دل میں ہو اندھرا تو چراغ کیا کریں گے
۔ میرے محبوب تو کیا جانے پیار کی کہانی
۔ اس طرح مجھ کو سہارا دے کہ پھر نہ گرسکوں
۔ کیا بات کہی سب سے بھلی بات یہی ہے
۔ خوابوں کی بات کرتے ہو کھبی عیاں ہو جائیں گے
۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے نام
۔ انسان مہت ظالم انسان درندہ
۔ قتل انانہ کر سکے وہ ہو گے شہید
۔ تقدیر کو بدل بھی دیا کرتی ہے دعا
۔ اقوال زریں

فہرست
۔ ندیم احمد کنور کی شاعری
۔ زیست
۔ اللہ و باقی من کل فانی (حمد)
۔ کیا شان ہے آپ کی سرداری کی (نعت)
۔ آج بھی ہر دم یاد آتی ہے(لارنس)
۔ ٹوٹ کر چاہا ہے تجھ کو اس کا ہی احساس کر
۔ مجھ سے نہ کر وفا کی وفا مرگَ عشق ہے
۔ ہوتا یقیں تو صرف نظر کر کے دیکھتے
۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ کوئی دیکھ نہ سکے
۔ بھول کے ساتھ گرکا کانٹا نہ ہوتا
۔ ایک نظر دو نظر تین کہ چار نظر
۔ خالص تو اب ہوا بھی میسر نہیں یہاں
۔ مجھے نیند آرہی ہے
۔ یہ لشمکش حیات کی مجھ کو ستا رہی ہے
۔ دکھ کسی کو مت سنانا بھول کر اپنے کنور
۔ ٹوٹ کر جو ٹہینوں سے گرتے ہیں
۔ مستنصر حسین تارڑ کی نذر
۔ بکھرا ہوں کچھ اس ادا سے
۔ کچھ تو رشتہ ہے تیرا میرے اعصابوں کے ساتھ
۔ اکثر شب کی تنہائی میں
۔ اک روز اک گلی میں مجھے زندگی ملی
۔ حالات کی سولی تھی میں مجبور ہو گیا
۔ روح عظیم مجھ کو جلا راکھ بنا دے
۔ اپنا یہ جہاح دیکھ کے یزداں سے تو
۔ اشرف المخلوقات کا اعزاز بھی حاصل اسے
۔ خود احتسابی کے عمل سے جو گزر سکتا نہیں
۔ امجد صابری صاحب کے نام
۔ کاش یہ میرے بس میں ہوتا
۔ جناب عمران خان کے نام
۔ سیاست دان کے نام
۔ پاکستان کے گولڈن جوبلی کے موقع پر ۱۴ اگست کے نام
۔ اے وطن ہم تییرے لے وہ کام کریں گے
۔ اے میرے کشمیر
۔ کوئی تصور نہیں خیال نہیں
۔ لوگ پیتے ہیں کنور مدہوش ہونے کے لے
۔ تیرا کوئی ہمدرد یا غم خوار نہیں ہے
۔ دوستی دوستوں کی نظر
۔ وہی رت ہے وہی موسم سہانے ہم کہاں جائیں
۔ نہیں کوئی مدد ہماری مدد اللہ کی ہر ساری
۔ نہ جنت کی لالچ سے نہ دوذخ کے خوف سے
۔ یوں تو ہر اک شہر میں آج بھی برپا ہے کربلا
۔ مسجد یہ نبوی ہے
۔ کتاب منور سے ہے روشن سینہ تیرا
۔ بات اتنی سی ہے کہ کوئی بات نہیں
۔ آخرت پر کر لے یقین گرہےکامل ایمان تیرا
۔ میرا کہنا سنا کوئی ہے تو معاف کردیں
۔ قرار کی بات کرتے ہوبے قراری کا عالم ہے
۔ گزری تھی ایک شب جو کسی ماہ جبیں کے ساتگ
۔ لکھ دیا ہے اس طرح تیری جبیں پہ اپنا نام
۔ ہر لحظ ہم کو وہ یاد آئے تو کیا کرے
۔ کچھ ایسے لوگ بھی مجھ کو ملے ہیں
۔ بات ہے دل کی مان جانے کی
۔ دل میں ہو اندھرا تو چراغ کیا کریں گے
۔ میرے محبوب تو کیا جانے پیار کی کہانی
۔ اس طرح مجھ کو سہارا دے کہ پھر نہ گرسکوں
۔ کیا بات کہی سب سے بھلی بات یہی ہے
۔ خوابوں کی بات کرتے ہو کھبی عیاں ہو جائیں گے
۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے نام
۔ انسان مہت ظالم انسان درندہ
۔ قتل انانہ کر سکے وہ ہو گے شہید
۔ تقدیر کو بدل بھی دیا کرتی ہے دعا
۔ اقوال زریں

There are no comments on this title.

to post a comment.

TLS v. 3.0.1 by LISolutions
Koha 18.0504 (Oct. 2018)

Powered by Koha