TY - BOOK AU - افتخار عارف TI - جَہانِ معلوم U1 - 891.439105 ا۔ف۔ت PY - 2013/// CY - اسلام آباد PB - پورب اکادمی N1 - فہرست ۔ مدحتِ شافع محشریہ مقرر رکھا ۔ مدینے کی طرف جاتے ہوئے گھبرا رہا تھا ۔ عہدِمیثاق ازل، خلق میں دُہراتا کون ۔ مدینہ و نجف و کربلا میں رہتا ہے ۔ سبیل ہے اور صراط ہے اور روشنی ہے ۔ کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے ۔ زکرِ مظلوم کو انعام میں رکھا گیا ہے ۔ ستاروں سے بھرا آسماں کیسا لگے گا ۔ ہمیں خبر تھی کہ درد اب تھمے گا نہیں ۔ بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا ۔ یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دُعا کیے جائیں ۔ یہ نقش ہم جو سرِلوح بناتے ہیں ۔ دل کو دیوار کریں صبر سے وحشت کریں ہم ۔ خواب دیراینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں ۔ مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار ہونا ۔ ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گے ہم ۔ اب اس میں کاوش کوئی نہ کچھ اہتمام میرا ۔ یوں تو نہیں کہ دل میں اب کوئی نئی دعا نہیں ۔ ایک کہانی بہت پرانی ۔ دلوں کو جوڑتی ہے سلسلہ بناتی ہے ۔ ہوکے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف ۔ دوست کیا خود کو بھی پرسش کی اجازت نہیں دی ۔ کوئی سبب سے جو تاریک شب ہوئی ہے میاں ۔ یقین سے یادوں کے بارے میں کچھ کیا نہیں جا سکتا ۔ یہ کیا خاک ہوے ہم جہاں وہیں کے نہیں ۔ کچھ بھی نہیں کہیں نہیں خواب کے اختیار میں ۔ ملے گی دادفغاں کیا ہمیں نہیں معلوم ۔ کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس ۔ کچھ دیر پہلے نیند سے ۔ روشن دل والوں کے نام ۔ سلامی ۔ جمال احسانی کی یاد میں ۔ فارسی طغرا ۔ فغان کشمیر ۔ سہرا ۔ بد گمانی میں کبھی گاہ خوش اندیشی میں ۔ شورشِ خلق کو ہنگامہ عامی نہ سمجھ ۔ جو میں نہ کر سکا وہ مرے ہم قلم کریں گے ۔ دلوں کے ساتھ جو خم نہیں کرتے ۔ اے زمین کربلا اے آسمانِ کربلا ۔ جو دل کی امانت ہے وہ منظر مرا بچ جائے ۔ غیروں سے دادِ جور و جفالی گئی تو کیا N2 - فہرست ۔ مدحتِ شافع محشریہ مقرر رکھا ۔ مدینے کی طرف جاتے ہوئے گھبرا رہا تھا ۔ عہدِمیثاق ازل، خلق میں دُہراتا کون ۔ مدینہ و نجف و کربلا میں رہتا ہے ۔ سبیل ہے اور صراط ہے اور روشنی ہے ۔ کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے ۔ زکرِ مظلوم کو انعام میں رکھا گیا ہے ۔ ستاروں سے بھرا آسماں کیسا لگے گا ۔ ہمیں خبر تھی کہ درد اب تھمے گا نہیں ۔ بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا ۔ یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دُعا کیے جائیں ۔ یہ نقش ہم جو سرِلوح بناتے ہیں ۔ دل کو دیوار کریں صبر سے وحشت کریں ہم ۔ خواب دیراینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں ۔ مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار ہونا ۔ ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گے ہم ۔ اب اس میں کاوش کوئی نہ کچھ اہتمام میرا ۔ یوں تو نہیں کہ دل میں اب کوئی نئی دعا نہیں ۔ ایک کہانی بہت پرانی ۔ دلوں کو جوڑتی ہے سلسلہ بناتی ہے ۔ ہوکے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف ۔ دوست کیا خود کو بھی پرسش کی اجازت نہیں دی ۔ کوئی سبب سے جو تاریک شب ہوئی ہے میاں ۔ یقین سے یادوں کے بارے میں کچھ کیا نہیں جا سکتا ۔ یہ کیا خاک ہوے ہم جہاں وہیں کے نہیں ۔ کچھ بھی نہیں کہیں نہیں خواب کے اختیار میں ۔ ملے گی دادفغاں کیا ہمیں نہیں معلوم ۔ کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس ۔ کچھ دیر پہلے نیند سے ۔ روشن دل والوں کے نام ۔ سلامی ۔ جمال احسانی کی یاد میں ۔ فارسی طغرا ۔ فغان کشمیر ۔ سہرا ۔ بد گمانی میں کبھی گاہ خوش اندیشی میں ۔ شورشِ خلق کو ہنگامہ عامی نہ سمجھ ۔ جو میں نہ کر سکا وہ مرے ہم قلم کریں گے ۔ دلوں کے ساتھ جو خم نہیں کرتے ۔ اے زمین کربلا اے آسمانِ کربلا ۔ جو دل کی امانت ہے وہ منظر مرا بچ جائے ۔ غیروں سے دادِ جور و جفالی گئی تو کیا ER -